صنفی مساوات کے خیال کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش میں 46 سالہ عراقی شیلان کمال نے باڈی بلڈنگ کی دنیا میں قدم رکھنے کا فیصلہ کرکے لوگوں کو حیران کردیا۔
شیلان کو کم عمری سے ہی اسے اپنی ماں کے ساتھ آٹا گوندھنا پسند تھا تاکہ وہ اپنے بازوؤں کے پٹھوں کی حرکت کو محسوس کر سکے، جس کے نتیجے میں اسے باڈی بلڈنگ کا شوق معلوم ہوا۔ عراق کے کردستان سے تعلق رکھنے والی شیلان کمال نے آخر کار باڈی بلڈنگ شروع کردی تاکہ وہ خواتین میں بھی مردوں کی طرح باڈی بلڈنگ کے تصور کو فروغ دے سکیں۔
شیلان کمال اربیل شہر کے مرکز میں قائم ایک جدید طرز کی جم میں مغربی موسیقی کی دھن میں چار گھنٹے تک باڈی بلڈنگ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “عورتوں کے لیے پٹھوں کو مضبوط کرنا اچھی بات ہے۔ ہم اپنے عضلات کو مضبوط بنا کر اپنی خوبصورتی کو نمایاں کرنا چاہتی ہیں۔”
تین سال قبل فوٹوگرافر اورجرمنی میں ماہر خوراک رہنے والی شیلان عراقی کردستان کے خودمختار علاقے کے دارالحکومت میں آباد ہوئیں۔ صرف اس کھیل کی اپنی مشق کی وجہ سے اسے ایک انتہائی مخالف معاشرے کا سامنا کرنا پڑا۔
خوبصورتی کے روایتی معیار
خوبصورتی کے روایتی معیارات کی مخالفت کرنے والی شیلان کمال کا کہنا ہے کہ “مجھے یہ پسند نہیں کہ لوگ میرے بارے میں بُرا خیال رکھیں۔”
نیلی آنکھوں اور درمیانے قد کی سنہرے بالوں والی باڈی بلڈر نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ خواتین کے بارے میں لوگوں کے کمتر نظریہ اور ان کے اس خیال سے نفرت کرتی ہے کہ اسے اپنے شوہر کی خاطر اپنے بچوں کی پرورش اور خود کو سنوارنا چاہیے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ عورتیں خوبصورتی اور طاقت کا امتزاج کیوں نہیں کر سکتیں؟۔
شیلان کمال اپنے دن کا آغاز سائیکل پر ٹریننگ کے ذریعے کرتی ہیں جب کہ اس کے بال کندھوں پر گرتے ہیں، پھر پٹھوں کی نشوونما کرنے والی مشینوں اور ویٹ لفٹنگ کی مشق مکمل کرتی ہیں۔
خواتین کے پھٹوں کو مضبوط کرنا
شیلان 22 سال کی عمر سے باڈی بلڈنگ کا شوق آگے بڑھا رہی ہیں۔ اس وقت ایک پرائیویٹ ٹرینر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ وہ اپنے انسٹاگرام پیج پر یورپ میں ہونے والے باڈی بلڈنگ مقابلوں میں اپنی بین الاقوامی شرکت، بعض اوقات کردستان کے علاقے کا جھنڈا لہراتی ہوئی پوسٹ کرتی ہے۔
شیلان کمال نے گذشتہ سال اپنے کیرئیر کا ایک نیا باب شروع کیا جب انہوں نے لندن میں خواتین کے باڈی بلڈنگ کے مقابلے میں حصہ لیا، پھر جرمنی کے شہر بوخم میں ایک اور مقابلے میں دوبارہ حصہ لیا اور گذشتہ اپریل میں جرمنی کے شہر کولون میں ہونے والی تیسری اور آخری چیمپئن شپ میں حصہ لیا۔ اس مقابلے میں شیلان نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔
وہ کہتی ہیں، “یہاں بدقسمتی سے لوگ سوئمنگ سوٹ میں خواتین کو کیٹ واک پر اپنے پٹھے دکھاتے ہوئے دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن وہ ہمیں کیٹ واک پر ہمارے پٹھے دکھاتے ہوئے دیکھنا قبول کر لیں گے۔”
کمال کا تعلق کردستان کے علاقے کے دوسرے سب سے بڑے شہر سلیمانیہ سے ہے، لیکن وہ 14 سال کی عمر میں اپنے چچا کے ساتھ جرمنی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے فوٹوگرافی کی تعلیم حاصل کی اور ملک کے مغرب میں واقع ڈسلڈورف کے ایک اسٹوڈیو میں فوٹوگرافر بن گئی۔
شیلان کمال نے 16 سال کی عمر میں شادی کی۔وہ تین بچوں کی ماں ہیں اور بچوں کی عمریں اب بیس سال کے درمیان ہیں۔
“روایت شکنی “
عراق جیسے ایک قدامت پسند ملک میں خواتین کے کھیل آہستہ آہستہ ترقی کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں فٹ بال، باکسنگ، ویٹ لفٹنگ یا کک باکسنگ میں خواتین کی بہت سی ٹیمیں نمودار ہوئی ہیں۔
کردستان میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور مدد کے ذریعے کھیلوں کی ترقی کے میدان میں اقدامات کیے گئے ہیں۔
شیلان کمال کا خواب ہے کہ وہ عالمی سطح کی باڈی بلڈر اور بین الاقوامی باڈی بلڈنگ چیمپئن شپ میں حصہ لینے والی پہلی کرد خاتون بنیں۔
وہ سمجھتی ہیں کہ بالعموم اور عراق کے کردستان ریجن میں خاص طور پر خواتین کو کھڑے ہو کر اور اپنی حقیقت کو بدل کر نہ صرف اپنی صحت کے لیے بلکہ صنفی عدم مساوات کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بھی وزن اٹھا کر اس کی مثال کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے مشن کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو توڑا بلکہ روایت شکن بن کر ابھری ہیں۔